علم الجفر، علم الحروف، اور علم الاعداد وہ علوم ہیں جنہیں عرفان، روحانیت، اور الٰہی اسرار تک رسائی کے ذرائع کے طور پر صدیوں سے مانا جاتا رہا ہے۔ ان علوم کی جڑیں انبیائے کرام علیہم السلام کے دور تک جا پہنچتی ہیں، اور اولیائے کاملین نے اپنے مکاشفات اور مشاہدات کی روشنی میں اس علم کو مزید نکھارا۔
یہ کہنا کہ علم الجفر یا علم الحروف حرام ہے، سراسر کم علمی یا بدنیتی کی علامت ہے، کیونکہ اگر یہ علوم واقعی ممنوع ہوتے تو تاریخ کے وہ نامور، متقی، پرہیزگار، اور علم و فقہ کے امام جو نہ صرف شریعت بلکہ طریقت کے بھی ستون تھے، کبھی ان میں وقت نہ صرف صرف نہ کرتے بلکہ انہیں اپنی گراں قدر تصانیف کا موضوع بھی نہ بناتے۔
ذیل میں ان عظیم المرتبت ہستیوں کی تصانیف کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے علم الجفر و الحروف کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ان پر گراں قدر کتابیں چھوڑیں:
رسالہ فی الجفر — امام احمد رضا خان بریلوی رح
برصغیر میں فقہ حنفی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار، امام احمد رضا بریلوی نے "رسالہ فی الجفر" جیسا عظیم رسالہ لکھا جس میں انہوں نے علم الجفر کی شرعی حیثیت، اس کے اصول اور اس سے مستفید ہونے کے آداب پر تفصیلاً گفتگو کی۔
سر الاسرار — منصور بن حلاج بغدادی رح
عشق و تصوف کے مجذوب منصور حلاج جنہیں انا الحق کے نعرے نے شہادت کی راہ دکھائی، ان کے روحانی اسرار کا مرکزی محور یہی علوم باطنی تھے، جن میں جفر سر فہرست ہے۔
بحر الوقوف علم الحروف — محی الدین ابن عربی رح
شیخ اکبر، جنہیں "امام العارفین" کہا جاتا ہے، نے اس کتاب میں علم الحروف کو الٰہی صفات کے مظاہر کے طور پر بیان کیا، اور اسے کائنات کی رمزی زبان قرار دیا۔
فصوص الحروف — علامہ عبداللہ قرطبی رح
جیسے "فصوص الحکم" میں حکمتوں کا نچوڑ ہے، ویسے ہی "فصوص الحروف" میں اسرارِ حروف کی اصل معانی بیان کی گئی ہیں۔
نصوص الانوار حرفیہ — ابو الخیر رابع رح
اس کتاب میں حروف کے روحانی انوار اور عملیات میں ان کے اثرات پر مفصل کلام ہے، جسے صرف صاحبِ بصیرت ہی سمجھ سکتا ہے۔
اسرار الجفر — نصیر الدین طوسی رح
مشہور فلسفی، ماہرِ ہیئت اور روحانی مفکر نصیر الدین طوسی نے اس کتاب میں علم الجفر کو ریاضی، فلکیات اور فلسفہ کے امتزاج کے ساتھ سمجھایا۔
کشف الاخبار — امام خمینی رح
روحانیت اور باطنی علوم میں گہری دسترس رکھنے والے اس مجدد نے علم الجفر کو شیعی تناظر میں پیش کیا اور اس کے باطنی اسرار بیان کیے۔
کشف المکنون — مکرم علی معظم رح
یہ کتاب جفرِ امامی کے راز کھولتی ہے، جس میں نادر عملیات، حروفی رموز، اور اسمائے الٰہی کے کوڈ درج ہیں۔
قرص الشمس فی بیان الحروف — حضرت عمر بن الفارس الحوی رح
یہ کتاب کائناتی اسرار کو حرفی روشنی میں بیان کرتی ہے، جس میں ہر حرف ایک شمسی صفت کا حامل مانا گیا ہے۔
منتہی الکمال — عبدالعزیز پرہاروی رح
جفر و علم الرمل کی تدوینی شکل، جو علمائے برصغیر کے لیے مرجع رہی ہے۔
مدارج البروج — علامہ زرقافی رح
اس میں علم النجوم، بروج اور حروف کے درمیان باطنی تعلق کا زکر موجود ہے۔
یقین من الحروف — احمد بن انطاکی رح
اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا کہ کیسے ہر حرف ایک خاص نورانی کیفیت اور کائناتی ارتعاش رکھتا ہے۔
ان کے علاوہ بایزید بسطامی، جمشید بصری، نصیرالدین سیوطی جیسے بزرگوں کی کتابیں "حقائق الیقین"، "معانی الاعداد"، اور "مخزن الحروف" بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
یہ فہرست صرف ایک جھلک ہے۔ اگر ان کتب کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علم الجفر کوئی خود ساختہ، توہم پرستی یا ضعیف الاعتقادی پر مبنی علم نہیں بلکہ یہ قرآنی حروف، کلام الٰہی اور اسمائے حسنیٰ کے اسرار کا منظم، روحانی اور نوری علم ہے۔
جو لوگ اسے حرام یا غیر شرعی کہہ کر رد کرتے ہیں وہ یا تو اس کے اسرار سے ناآشنا ہیں یا اپنے دل و نگاہ کو ان علوم کی روشنی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر یہ علم حرام ہوتا تو کیا امام احمد رضا، امام غزالی، محی الدین ابن عربی، امام سیوطی، امام خمینی اور دیگر اولیائے کاملین اس پر اپنی زندگیاں صرف کرتے؟
علم الجفر نہ تو جادو ہے، نہ نجومی فریب۔ یہ ایک ایسا روحانی فن ہے جسے فقط وہی سمجھ سکتا ہے جس کا قلب نورِ الٰہی سے روشن ہو۔
اہل دل، اہل بصیرت اور سچے طالب علم اس موضوع پر اپنی رائے دیں تاکہ اس باطنی خزانے کی حرمت و حقیقت عام ہو۔
منتظر ہوں صاحبِ علم و صاحبِ نسبت حضرات کی آراء کا
— بدر علی ھوت