میرا نام اسلم ہے میری تین بیٹیاں ہیں
میں اپنی بیوی اور تینوں بیٹیوں کے ساتھ آسودہ ذندگی گزار رہا ہوں اپنا ذاتی کاروبار ہے
تینوں بیٹیاں اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں چھوٹی دونوں کالج میں پڑھتی ہیں اور بڑی بیٹی کرن یونیورسٹی ہوتی ہے شہر کے ایک پوش ایریا میں نیا گھر لیا ہوا ہے
گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔
ایک صبح روز کے معمول کے مطابق میں کرن کو یونیورسٹی چھوڑنے جا رہا تھا دوران ڈرائیو میں کسی سے فون پہ بات کر رہا تھاکرن فرنٹ سیٹ پہ کھلے بالوں سے پر سے دوپٹہ ہٹاے بیٹھی موبائل استعمال کر رہی تھی ۔ آگے سگنل پے میں نے گاڑی روک دی تھی ۔
میں فون پہ بات کرنے کے ساتھ ساتھ سگنل کھلنے کا ٹایم بھی دیکھ رہا تھا کال کاٹ کر میں نے موبائل سائڈ پہ رکھ کر کرن کی طرف دیکھا اور کہا بیٹا سو بار کہا ہے دوپٹہ نا سر سے ہٹایا کرو کرن اپنی سائڈ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی میں نے لاشعوری طور پر اس طرف دیکھا روڈ سائڈ پہ بنے فٹ پاتھ پہ سفیدے کے درخت کے نیچے اور کرن کی سائڈ پہ سامنے ایک مٹیالے رنگ کا کتا کھڑا تھا اور کرن کی طرف ہی دیکھ رہا تھا اور ساتھ دم ہلا رہا تھا کتے اور گاڑی کے درمیان بہ مشکل سات آٹھ فٹ کا فاصلہ رہا ہوگا ۔
میں کرن کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا کیونکہ میری بیٹی کرن پالتو جانوروں کی بے حد شوقین ہے ۔ ہمارے گھر میں دو بلیاں طوطے مور اور کئی اور پالتو پرندے کرن نے اپنے شوق کی وجہ سے رکھے تھے ۔ کرن کو اتنی مہویت سے کتے کی طرف دیکھتا دیکھ کر میں نے مسکراتے ہوے کہا کہ اب کتا پالنے کی خواہش نا کر دینا ۔ کرن نے میری بات سن کر میری طرف دیکھا اور مسکرا دی .
سگنل اس دوران کھل چکا تھا میں نے گاڑی آگے بڑھا دی کرن ابھی بھی سائڈ مرر سے پیچھے دیکھ رہی تھی ۔ میں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔
دس بارہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد یونیورسٹی آگئی میں نے کرن کو اتارہ اور واپس چل دیا ابھی میں گھر کے سامنے پہنچا تھا کہ کرن کی کال آگئی میں نے کال اٹینڈ کرتے ہی کہا کہ نہیں بیٹا کتا گھر نہیں رکھنے دینا میں نے ۔ مگر آگے سے کرن کی گھبرائی سی آواز آئی ابو مجھے گھر لے جائیں میرا دل گھبرا رہا ہے اور میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔ میں نے یہ سنتے ہی کال کاٹ دی اور جلدی سے گاڑی موڑ کر یونیورسٹی کی طرف روانہ ہو گیا
کچھ منٹ میں میں کرن کے پاس تھا کرن بنچ پہ بیٹھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے اس نے سر پکڑا ہوا تھا ۔ میں نے اسے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا ۔ واپسی پہ میں بار بار پوچھے جا رہا تھا کہ کرن کیا ہو رہا ہے مگر کرن نے کوئی جواب نا دیا بس سر کو پکڑ کر بیٹھی رہی میں نے پریشانی کے عالم میں کرن کی امی کو فون کر کے کہا کہ جلدی سے گیٹ کے باہر آو کرن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہسپتال جانا ہے ۔ میراگھر ہسپتال جانے کے راستے میں ہے گھر کے گیٹ پر کرن کی ماں پریشان کھڑی تھی گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی مگر میں خود لا علم تھا ہسپتال کا راستہ ابھی ہم طے ہی کر رہے تھے کہ کرن نے بے حد اونچی آواز میں کہا ابو میں اب ٹھیک ہوں امی سے کہیں اونچا بولنا بند کریں اور مجھے ہسپتال نہیں جانا مجھے گھر واپس لے چلیں ۔ میں نے کہا بیٹا اچھی بات ہے طبیعت ٹھیک ہو گئی ہے مگر ہسپتال ڈاکٹر سے چیک کروا لیتے ہیں ۔ مگر کرن میری بات کاٹتے ہوے سخت غصہ سے چلاتی ہوئی بولی اگر آپ نے گاڑی گھر کی طرف نا موڑی تو میں چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دونگی ۔میں نے کرن کی ماں کی طرف حیرانی سے دیکھا وہ خود منہ کھولے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے گاڑی کا لاک چیک کیا گاڑی آٹو لاک پہ ہی تھی میں نے گاڑی آہستہ کی اور گھر کی طرف موڑ دی مگر میں حیرانی کے ساتھ افسردگی کی کیفیت میں تھا میری بیٹی نے میرے ساتھ یا اپنی ماں کے ساتھ اس لہجہ میں کبھی نہیں بات کی تھی ۔ میں حیران تھا کہ کچھ دیر پہلے کرن نے مجھے چائے بنا کے پلائی تھی اس کے بعد اس نے یونیورسٹی جانے کی تیاری کی اور گھر سے نکلتے وقت ماں کو کہا تھا کہ مارکیٹ جانا ہے شام کو ذہن میں رکھیے گا ۔ اور ہم باتیں کرتے گھر سے نکلے تھے ۔ یہ سب اچانک کیا ہوا ہے ۔ خیر اتنی دیر میں ہم گھر کے سامنے پہنچ گئے ۔
کرن کو میں اپنے کمرے میں لے آیا اور بیڈ پہ لٹا دیا کرن بلکل خاموش تھی میں نے کرن کےپاس بیٹھ کر اس کے ماتھے کو سہلاتے ہوے پیار سے کہا کہ کیا ہوا تھا میری بیٹی کو کرن کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ کرن کو بہت تیز بخار ہے ۔ مگر میری بات کا کرن نے کوئی جواب نا دیا ۔ اس کی ماں نے کرن کا سر دبانا چاہا مگر کرن نے وہ بھی نا دبانے دیا ۔ بیڈ سے اٹھتے ہوے اس نے کہا میں اپنے کمرے جانا چاہتی ہوں اور یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئی ۔ میں اور کرن کی ماں حیران و پریشان ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے اسکی ماں رونے لگ گئی کہ میری بیٹی کو کیا ہو گیا ہے ۔ میں نے کہا رونا بند کرو لگتا ہے بخار اس کے سر کو چڑھ گیا ہے تم پریشان نا ہو میں ڈاکٹر کو جا کے ملتا ہوں ۔
شام تک کرن کی طبیعت بلکل ٹھیک تھی حیران کن بات یہ تھی کہ کرن کو یہ سب یاد نا تھا اسکی ماں نے جب اسے بتایا تو وہ بھی حیران ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس لہجہ میں بات کرے میں نے اسے سمجھایا کہ اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں جب بخار سر پر چڑھ جاے تو انسان کو احساس نہیں رہتا .
میری عادت ہے میں جلد سو جاتا ہوں
کرن کو باقی گھر والوں کے ساتھ باتیں کرتا اور ٹی وی دیکھتا چھوڑ کر میں سونے چلا گیا ۔
میری آنکھ کرن کی امی کے مجھے جنھوڑنے پہ کھلی میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا دونوں چھوٹی بیٹیاں اور کرن کی ماں مجھے کہے جا رہی تھیں کہ دیکھیں کرن کو کیا ہو گیا ہے میں بدحواسی میں کرن کے کمرے کی طرف بھاگا کرن اپنے بستر پر اوندھی پڑی تھی اس کے ہاتھ پاوں مڑے ہوے تھی اور منہ سے ہوں ہوں ہوں کی آواز آرہی تھی ۔میں نے کرن کو اٹھا لیا عجیب سی بدبو اس کے وجود سے آرہی تھی میں اسے اٹھا کر گاڑی کی طرف بھاگا اور کچھ دیر بعد ہم ہسپتال تھے ۔
میری پریشانی اب حیرانی میں بدلی ہوئی تھی کیونکہ جیسے ہی کرن کو گاڑی میں بٹھا کر گھر کے گیٹ سے گاڑی باہر نکالی تھی کرن ٹھیک ہو گئی تھی اور اور اسے ہوش آ گیا تھا اور اس بار بھی صبح کی طرح وہ چلائی تھی کہ میں نے ہسپتال نہیں جانا میں ٹھیک ہوں مگر میں نے گاڑی ہسپتال ہی آ کر روکی تھی ۔
ڈاکٹر نے تسلی سے چیک کر کے کہا کہ کرن بلکل ٹھیک ہے ۔ ڈاکٹر کو جب سارا واقعہ سنانے کی کوشش کی تو اس نے میری بات کاٹتے ہوے کہا کہ یہ ڈپریشن کے دورے ہیں اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے آپ کی بیٹی کو کوئی ٹینشن ہو ۔ باقی کوئی مسلہ نہیں ہے ۔
ہسپتال سے گھر واپس آتے وقت میں پریشانی میں سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی کرن کو ڈپریشن کے دورے پڑ رہے ہیں۔ گھر جا کر کرن کی ماں تینوں بیٹیوں کے پاس ان کے ہی کمرے میں سو گئی ۔ رات کے جانے کس پہر سوچتے سوچتے میں بھی سو گیا مگر صبح صادق کے وقت کرن کی ماں نے مجھے اٹھا دیا اسے سے بولا نہیں جا رہا تھا اس کے منہ سے کرن کا نام سنتے ہی میں کرن کے کمرے کی طرف بھاگا کرن اپنے کمرے کے فرش پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تو میں حیران رہ گیا کرن کے آدھے سر کے بالوں سے اسکے گھٹنے بندھے تھے اور آدھے سر کے بالوں سے اس کے ہاتھ پیچھے کر کے بندھے تھے میری دونوں چھوٹی بیٹیاں سہمی سی ایک طرف کھڑی تھیں میں نے جلدی سے بالوں کی دونوں گانٹھ کھولنے کی کوشش کی حیران کن بات یہ تھی کہ نا گھٹنوں کے پاس سے بالوں کی گانٹھ کھل رہی تھی نا ہی ہاتھوں پہ بندھی گانٹھ ۔
پتا نہیں کیسے وہ گانٹھ کھلی میں نے کرن کو اٹھا کے اس کے بستر پر لٹایا کرن کے وجود سے انتہائی بدبو آ رہی تھی کمرے میں کھڑا ہونا محال ہو رہا تھا جیسے میں نے بالوں کی۔گانٹھ کھولی کرن کا جسم ڈھیلا ہو گیا تھا اور اس کے منہ سے آواز آنا بند ہو گئی تھی ۔ اس کی ماں نے بتایا کہ میں کرن کے ساتھ ہی اس کے بستر پر سوئی تھی میری آنکھ کرن کے منہ سے نکلنے والی آواز سے کھل گئی میں نےدیکھا کہ کرن فرش پر اسی حالت میں بیٹھی ہے میں نے فوراً اٹھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر اس کا جسم اتنا وزنی تھا آپ سوچ بھی نہیں سکتے باقی دونوں بچیوں کو اٹھا کر میں آپ کی طرف بھاگی یہ کہ کر وہ رونے لگی کہ نا جانے میری بیٹی کو کیا ہوا ہے ۔میں نے اسے چپ ہو جانے کو کہا اتنے میں کرن نے آنکھیں کھول لی تھیں میں اس سے پوچھنے لگ گیا کہ بیٹا کیا ہوا ہے اس نے کمزور آواز میں نقاہت بھرے لہجہ میں کہا کہ مجھے تو کچھ نہیں ہوا بس جسم میں بہت درد ہے ۔
میں نے اسکی بات سن کر اسے دلاسہ دیا مگر میرے دماغ میں آ گیا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے
ایک بات میں نے نوٹ کی تھی کہ اس کیفیت میں کرن کے جسم سے انتہائی گندی بدبو آنے لگ جاتی ہے مگر جیسے وہ نارمل ہوتی ہے بدبو آنا بھی بند ہو جاتی ہے ۔
صبح ہوئی میں نے کرن کی امی سے مشورہ کرکے اپنے ایک جاننے والے جو کہ عامل ہیں ان سے بات کی اور انکو گھر لے آیا ۔ انہوں نے حساب وغیرہ کیا کرن کو دیکھا اور کہا اس پہ بہت سخت جادو ہے ۔اور اسکا یہ توڑ ہے میں نے کہا آپ کر دیں وہ کافی دیر پڑھتے رہے پڑھنے سے فارغ ہوکر انہوں نے کہا اب ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔
سارا دن خیریت سے گزر گیا اس رات کرن کی ماں نے ہال کمرے میں سب کے بستر لگا دیے تھے رات کے کسی پہر میری آنکھ کھلی میں نے کرن کے بستر کی طرف دیکھا کرن اپنے بستر پر نا تھی
میں نے فوراً اسکی ماں کو جگایا اور اٹھکر کرن کے کمرے کی طرف گیا کمرے کی لائٹ آف تھی میں نے لائٹ جلائی مگر کمرہ خالی تھا ہم میاں بیوی نے سارے کمرے چیک کیے مگر کرن کہیں نہیں تھی میں نے اوپر والے پورشن میں کمروں کو چیک کیا وہاں بھی کرن کو نا پا کر میرے اوسان خطا ہو رہے تھے پریشانی سے میرے قدم منوں وزنی ہو رہے تھے میں اور کرن کی ماں پاگلوں کی طرح گھر کا کونہ کونہ چھان رہے تھے ہم نیچے پورشن میں پہنچے میں بھاگ کر ہال کے داخلی دروازہ کی طرف بڑھا کہ صحن کی طرف جاوں مگر دروازے کو اندر سے لگی کنڈی دیکھ کر میں رک گیا اتنی دیر میں کرن کی ماں نے کہا کہ سٹور میں دیکھیں میں انہی قدموں سے واپس مڑا اور سٹور کی طرف بھاگا مگر سٹور کے دروازے کی کنڈی باہر سے ہی بند تھی میں نے مایوسی سے سٹور کا دروازہ کھولا انتہائی گندی بدبو میرے ناک سے ٹکرائی اسٹور میں اندھیرا تھا میں نے لائٹ جلائی مگر کرن اسٹور میں نا نظر آئی سٹور میں بدبو بتا رہی تھی کہ کرن اسٹور میں ہے اچانک میرے کانوں میں ہوں ہوں ہوں کی آواز ٹکرائی جو کہ کرن کی ہی تھی میں نے آواز کی سمت دیکھا جو سٹور میں بنے اوپر چھت کے روف سٹور سے آرہی تھی میں صندوق پہ چڑھ گیا اور روف سٹور کے اندر جھانکا میرے سامنے سامان کے بڑے کارٹن پڑے تھے اور کارٹن کے پیچھے سے ہوں ہوں کی آواز آ رہی تھی میں نے کارٹن سائڈ پہ کیے روف اسٹور کے آخر میں دیوار سے ٹیک لگاے کرن گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں پر وزن ڈال کر اچھل کر روف اسٹور میں چلا گیا اور دوزانو بیٹھ کر میں نے کرن کی طرف بیٹھ کر کرن کو پکارا مگر کرن نے کوئی جواب نا دیا وہ میری موجودگی سے بلکل بے خبر تھی اور اس کے منہ سے بس ہوں ہوں کی آواز نکل رہی تھی میں نے اسے ٹانگ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ااسکا منہ گھٹنوں پہ تھا اور بال اس کے گھٹنوں کے نیچے گانٹھ کی صورت بندھے تھے اور باقی بالوں سے اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پہ بندھے تھے
خدا یہ لمحہ کسی باپ کو نا دکھاے
میں جلدی سے نیچے صندوق پہ اترا اور صندوق پہ کھڑے ہو کر میں نے کرن کو اٹھا لیا اور اسے صندوق پہ بٹھایا اور اسکے بال کھولنے کی کوشش کرنے لگا اس کی ماں بھی روتی ہوئی میری مدد کر رہی تھی مگر بالوں کی گانٹھیں نا کھلیں میں صندوق سے نیچے اترا اور کرن کو اٹھا کر سٹور سے باہر نکلا اور ہال میں داخل ہوا مگر سامنے کا منظر دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے اور کرن میرے ہاتھوں سے گرتی گرتی رہ گئی میری دونوں بیٹیاں نیچے فرش پر گری پڑی تھیں دونوں کے آپس میں سر ملے تھے اور انکے منہ سے ہوں ہوں کی آوازیں نکل رہی تھیں ۔کرن کی ماں چینختی ہوئی بیٹیوں کی طرف لپکی
میں نے کرن کو اس کے بستر پر لٹایا اور مڑ کر فرش پہ گری بیٹیوں کو اٹھانے کی کوشش کی دونوں کے بال آپس میں بندھے تھے اور دونوں کے وجود سے بدبو آ رہی تھی میں نے بڑی مشکل سے دونوں کے بال کھولے اور انکو اٹھا کر انکے بستر پر لٹایا ایک عجیب سے خوف کا احساس ہو رہا تھا میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کرن کی ماں کے رونے کی آواز بھی مجھے خوف میں مبتلا کر رہی تھی میں نے فون اٹھا کے اسی عامل کو فون ملایا گھنٹی جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا خیر تیسری دفعہ کی کوشش میں اس نے کال اٹینڈ کر لی اس کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی میں نے جلدی سے کہا کہ میرے گھر میں مصیبت آگئی ہے میں آپکو لینے آ رہا ہوں یہ کہہ کر میں نے کال کاٹی اور کرن کی ماں کو تسلی دی اور بچیوں کے پاس ہی رکنے کی تاکید کر کے ہال کا درواز کھول کر باہر نکلا ہال سے نکلتے ہی میری نظر سامنے پڑی اور میں خوف کے ملے جلے احساس سے ٹھٹھک کر رک گیا میرے سامنےمٹیالے رنگ کا کتا بیٹھا تھا ۔ ایک لمحے بعد میں نے حواس مجمع کر کے اسےہاتھ کے اشارے سے ہُش ہُش کر کے اسے ڈرایا کتا اٹھا اور بڑے آرام سے چلتا ہو گیٹ کی طرف بڑھا گیٹ کے پاس پہنچ کر اس نے چھلانگ لگائی اور گیٹ سے ملحقہ دیوار پر چڑھکر دوسری طرف کود گیا ۔ میں حیران تھا کہ یہ کتا کہاں سے آگیا
کچھ دیر میں میں عامل صاحب کے پاس پہنچ گیا وہ بے چارہ میرے انتظار میں تھا ہم اسی وقت واپس روانہ ہو گئے کہ میں گھر پہنچا تو ہال میں داخل ہوتے ہی مجھے تسلی کا احساس ہو گیا تینوں بیٹیوں کوہوش آگیا تھا اور اپنی ماں سے چمٹی بیٹھی تھیں ۔ عامل صاحب نے سب کو دم کیا پانی پلایا اور پڑھنے بیٹھ گئے کوئی ادھ گھنٹہ پڑھنے کے بعد کہنے لگے میں نے حصار کر دیا ہے اب ایسا نا ہوگا ۔
میں نے عامل صاحب سے پوچھا عامل صاحب یہ سب کیا ماجرہ ہے تو وہ کہنے لگے جادو کی وجہ ہے اور کچھ نہیں کچھ رشتہ دار آپ سے رشتے لینا چاہتے ہیں یہ سب اسی کی شرارت ہے ۔ عامل صاحب نے واپس جانا چاہا میں نے کرن کی ماں کو دوبارہ بچیوں کے پاس ہی رکنے کی تاکید کی اور عامل صاحب کو چھوڑنے چلا گیا ہم ابھی راستہ میں ہی ہونگے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی دوسری طرف کرن کی ماں تھی جو بتا رہی تھی کہ کرن کو دوبارہ کچھ ہو گیا ہے اور اس کےہاتھ پیر مڑ گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصر یہ ہے کہ میں نےاس کے بعدنا کوئی عامل نا کوئی پیر چھوڑا سب نے اپنااپنا راگ آلاپ کر علاج کیا کچھ نے تو بچیوں پہ ہڑھائی کرتے وقت ھپڑ بھی مارے کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ ہمارے آستانے چھوڑ جاو تین دن کیلیے پھر ٹھیک ہوں گی اب آپ بتائیں میں نوجوان بچیاں کیسے کسی غیر محرم کے ہاں چھوڑ سکتا ہوں ۔
ایک ماہ ہونے کو ہے میرے گھر سے سکون ختم ہو گیا ہے میری بیٹیاں پورے خاندان میں موضوع ذکر بن گئی ہیں خاندان میں قریبی رشتہ داروں میں دو شادیاں ہوئیں اور دونوں گھروں نے فون کر کے کہہ دیا کہ براے مہربانی بچیوں کی شادی ہے آپ دونوں میاں بیوی ہی آئیے گا اپنی بچیوں کو نا لائیے گا ۔ مہمانوں نے برا منانا ہے شادی کا موقع ہے سب کی بچیاں ہو نگی ایسے کسی اور کو اثر ناہو جاے ۔
اس ایک مہینے میں دونوں پالتو بلیاں مر گئیں طوطے رہے نا مور نا چڑیاں کوئی پالتو پرندہ نہیں بچا اب یہ عالم ہے کہ کبھی کوئی بچی واش روم میں بالوں سے بندھی ملتی ہے کبھی کوئی بچی سٹور میں ایک دن تو حد ہو گئی کرن اپنے کمرے میں دیوار میں بنی کپڑوں کی الماڑی میں بند کواڑوں کے اندر بالوں سے بندھی بے ہوش پائی گئ آج کل گھر میں ہر وقت عجیب سی بدبو پھیلی رہتی ہے ۔ میں بہت پریشان ہوں میں اتنی دور سے آپ کو لینے آیا ہوں ا
ارشد صاحب میرے اس دوست کے بہنوئی ہیں میرے دوست کی بیوی نے ارشد صاحب کی بیوی سے باتوں باتوں میں ذکر کیا تو انہوں نے آپ کا بتایا بدر بھائی آپ اس معاملے میں کچھ کر سکتے ہیں تو پلیز میرے ساتھ چلیں اس کا اجر آپکو اللہ دے گا ...........یہ کہہ کر اسلم صاحب خاموش ہوگئے ۔میں جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا حیرانی سے اسلم صاحب کی یہ ساری بات سن رہا تھا انکو خاموشی اختیار کرتا دیکھ کر آمین کہہ کر اٹھ کر ان کےساتھ جانے کیلیے تیار ہونے اندر چلا گیا
اسلم صاحب اپنے دوست کے ہمراہ انکے ساتھ ساری رات کا سفر کر کے آج صبح صبح میرے ایک قریبی تعلق والے ارشد صاحب کےہمراہ میرے پاس آے تھے ۔حال احوال کے بعد انہوں نے اپنا مسلہ بتانا شروع کیا تھا اور بنا رکے سارا مسلہ بتایاتھا ۔ جسے سن کر ہی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سارا مسلہ آسیب سے تعلق رکھتا ہے ۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ارشد صاحب کو انکے گھر چھوڑ کر ہم اسلم صاحب کے گھر جانے کیلیے شہر سے نکل رہے تھے ۔
رات کے تقریباً دس بجے ہونگے جب ہم اسلم صاحب کے گھر پہنچے ۔اسلم صاحب کے دوست راستہ میں اتر گئے تھے ۔ گاڑی سے اترنے کے بعد میں اسلم صاحب کی ہمراہی میں انکے گھر کے ہال کمرے میں پہنچا جہاں انکی تینوں بیٹیاں اور انکی بیوی موجود تھیں گھر میں پھیلی مکروہ بدبو اور ایک مخصوص نحوست آسیب کی موجودگی کا منہ بولتا ثبوت تھا اور بچیوں کے چہرے کی ذردی مائل رنگت دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا ۔
سلام دعا کے بعد اسلم صاحب مجھے ڈرائنگ روم کی بجاے ایک بیڈ روم میں لے آے انکا کہنا تھا کہ میں فریش ہو جاوں اس کے بعد کھانا تیار ہے ۔ میں نے کہا کھانا تو اب کرن اور بچوں کے ٹھیک ہونے کے بعد ہی کھاوں گا آپ اس وقت کسی صورت ایک مرغی کا بندوبست کریں ۔ میں نے وضو کیا اور تیسرے کلمے کا ورد کرتا ہوا اسلم صاحب کے ہمراہ ہال کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات کی دھند بھری سحر کے وقت تقریباً چار بجے کے بعد میں اسلم صاحب اور انکی تینوں بیٹیوں کے ساتھ کرن کی یونیورسٹی کے روڈ پے سفیدے کے درخت کے نیچےگاڑی روک کر اپنے سامنے کھڑے ایک مٹیالے رنگ کے کتے کے آگے ایک ذبح شدہ مرغی رکھ رہا تھا ۔تینوں بچیاں اور اسلم صاحب میرے پیچھے کھڑے تھے کتے نے میرے پیچھے دیکھنے کی بھی جرات نا کی اپنا بڑا سا منہ کھولا اور مرغی اٹھا کر دھند بھرے اندھیرے میں غائب ہو گیا ۔
اسی وقت فجر کی آذان کی آواز آئی
اللہ اکبر اللہ اکبر
میں نے سکون کا سانس لیا اور اسلم صاحب سے کہا بھائی صاحب رات جتنی کالی اور بڑی ہو دن ہو ہی جاتا ہے ایک نئی سحر آپکو مبارک ہو چلیں گھر چلیں بہت بھوک لگی ہے ۔
یہ واقعہ اس سال کے مہینہ جنوری کا ہے اسلم صاحب سے میری اکثر بات ہوتی رہتی ہے کرن اور اسکی بہنیں اب بلکل ٹھیک ہیں ان سے بھی بات ہوتی ہے اور ہر بار میں انکو تاکید کرتا ہوں کہ راستے میں دوپٹہ نہیں اتارنا ۔
میں نے اپنی عملیات کی اٹھارہ سالہ ذندگی میں ایک باپ کی بے بسی اس سے بڑھ کر نہیں دیکھی مجھےیوں لگتا ہے جیسے اسلم صاحب کی مددکر کے میرا عملیات سیکھنے کا مقصد پورا ہو گیا
آپ سب کی محبتوں کیلیے شکر گزار ہوں ۔آپ سب کی سلامتی ور خوشیوں کیلیے بہت ساری دعائیں ۔
مجھے بھی اپنی دعا میں یاد رکھیے گا جلد ایک اور آپبیتی کے ساتھ حاضر ہووں گا ۔ سلامت رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ وسلام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔. بدر علی ھوت