Foundation of Pakistan: An Unforgettable Event in History

 




قیامِ پاکستان کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ

پاکستان بننے کے وقت میرے ایک قریبی دوست کی والدہ کی عمر کوئی تیرہ یا چودہ سال تھی۔ یہ کہانی انہی کی زبانی سنی گئی، اور جتنی بار سنو، دل دہل جاتا ہے، آنکھیں حیرت میں کھو جاتیں ہیں، اور ایک سبق دل پر ثبت ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک ایسا سچا واقعہ ہے جو 1947 کے ہجرت کے طوفانی ایّام میں پیش آیا، جب زمینیں بدلیں، چہرے بچھڑے، اور تقدیریں نئی لکیروں میں رقم ہوئیں۔

وہ بتاتی تھیں کہ ہمارا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد حالات اس قدر خراب ہو چکے تھے کہ ہمیں سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی۔ ہمارا قافلہ تقریباً دو سے تین سو افراد پر مشتمل تھا، جن میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی، اسی لیے سفر کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے اللہ نے محفوظ رکھا




ہم براستہ ہارون آباد پاکستان میں داخل ہوئے۔ اُس وقت ہارون آباد ایک چھوٹے سے قصبے جیسا تھا، آج کے پھیلے ہوئے شہر کی مانند نہیں۔ ہم نے وہاں ایک ٹوبے (پانی کی بڑی قدرتی جگہ) کے قریب رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ قافلے کے سب لوگ بہت تھکے ہوئے تھے، اور سب نے کہا کہ چونکہ اب ہم پاکستان پہنچ چکے ہیں، تو ایک دن آرام کر لیتے ہیں تاکہ کل تازہ دم ہو کر سفر آگے جاری رکھا جا سکے

اسی قافلے میں میرے تایا کی ایک بیٹی بھی تھیں، جن کی عمر بیس سال تھی اور بے حد خوبصورت تھیں۔ وہ سفر کے دوران بیمار ہو گئی تھیں، تیز بخار میں مبتلا۔ قافلہ جس ٹوبے کے قریب رکا، اُس کے پاس بیس پچیس جھونپڑیاں تھیں جن میں کچھ جوگی (خانہ بدوش قسم کے لوگ) رہتے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے، وہ اپنے اونٹوں پر سامان لاد کر کوچ کی تیاری میں تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ کچھ ڈرے مگر ہم نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا، تو وہ بھی اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

کچھ دیر بعد انہی جوگیوں میں سے چند عورتیں اور مرد ہماری طرف آئے اور مدد کی پیشکش کی۔ لیکن ہمارے پاس تمام ضروری سامان موجود تھا، اس لیے ان کی کسی پیشکش کو قبول نہ کیا گیا



اسی دوران ایک ادھیڑ عمر جوگی آہستہ آہستہ ہمارے قافلے کے اس حصے کی طرف آ گیا جہاں ہمارے گھرانے کے افراد بیٹھے تھے۔ وہ درخت کے نیچے بیٹھ کر مردوں سے باتیں کرنے لگا۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ وہ جھاڑ پھونک (دم درود) کا کام بھی جانتا ہے۔ یہ سن کر میری تائی فوراً بولیں، “جوگی بابا! میری بیٹی بیمار ہے، پھونک مار دو شاید افاقہ ہو جائے۔”



جوگی نے میری تایا زاد بہن کو دیکھا، اور پھر کچھ لمحے اُسے خاموشی سے گھورتا رہا۔ تائی کو اس کا یوں مسلسل دیکھنا برا لگا۔ پھر وہ بولا، “کسی برتن میں پانی لاو، لیکن وہ پانی اسی ٹوبے سے ہو۔” میرا کزن دوڑ کر گیا اور ایک برتن میں ٹوبے کا پانی لے آیا۔

جوگی نے پھر تایا زاد بہن کی طرف نظریں جمائیں اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا۔ کافی دیر بعد اس نے پانی میں پھونک ماری اور بولا، “تمہاری بیٹی پر راستے میں بھوتوں کی نظر لگ گئی ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ یہ بچ جائے، تو آج رات جب آدھی رات ہو، تب یہ لڑکی اس ٹیلے پر جائے جو سامنے نظر آ رہا ہے، اور یہ پانی اپنے اوپر گرا دے۔ صبح تک یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔”

تائی نے وہ پانی چپ چاپ لے لیا۔ جوگی نے ایک بار پھر لڑکی کی طرف دیکھا اور اپنی جھونپڑیوں کی طرف واپس چل دیا۔ شام ہوتے ہی وہ جوگی اور اس کے ساتھی کوچ کر گئے۔

رات ہو گئی۔ سب تھکن سے چور سو چکے تھے، لیکن تائی کی آنکھوں میں نیند نہ تھی۔ ان کے دل میں بار بار عجیب وہم اٹھتا۔ کیا واقعی یہ پانی علاج ہے؟ یا کچھ اور؟ وہ تذبذب کا شکار تھیں۔ آخرکار انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو اس پانی سے نہیں نہلائیں گی۔ اور پھر، رات گزر گئی۔

صبح قافلہ روانہ ہو گیا۔ جب ہم ہارون آباد شہر میں داخل ہو رہے تھے تو تائی کو یاد آیا کہ وہ پانی والا بند برتن تو ابھی تک ان کے سامان میں رکھا ہے۔ ایک جگہ قافلہ کچھ دیر کو رکا تو تائی نے وہ برتن نکالا، اور ایک کچی مٹی کے بڑے سے روڑے (پتھر) پر وہ پانی انڈیل دیا۔

پھر جو ہوا، وہ سب کی آنکھوں نے دیکھا۔

جیسے ہی پانی اُس روڑے پر گرا، وہ روڑا حرکت میں آ گیا۔ اچانک اس نے گھومنا شروع کیا، اور پھر زور سے لڑھکنے لگا۔ اتنی تیز سپیڈ سے وہ واپس اُسی سمت لڑھکتا گیا، جہاں سے ہم آئے تھے — جیسے کسی نے اسے گھما کر واپس روانہ کیا ہو۔ قافلے کے سب لوگ دم بخود تھے۔ وہ منظر آج بھی سنو تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔

جب تائی نے سب کو جوگی اور اس پانی کی کہانی سنائی، تو پورے قافلے نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگر تائی نے وہ پانی رات کے اندھیرے میں اپنی بیٹی پر ڈال دیا ہوتا، تو شاید اس لڑکی کا بھی انجام کسی بھاگے ہوئے روڑے جیسا ہو جاتا۔

وہ تایا زاد بہن بعد میں صحت مند ہو گئیں، ان کی شادی ہوئی، اور زندگی نے انہیں پوتوں کی شادی تک دیکھنے کی مہلت دی۔

یہ واقعہ صرف ہجرت کی صعوبتوں کا عکس نہیں بلکہ ایک روحانی بیداری بھی ہے۔ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر دم محتاط رہنا چاہیے، اور ہر پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے دل و دماغ سے مشورہ لینا چاہیے۔ تقدیر کے کچھ راز صرف ایمان سے ہی کھلتے ہیں۔

وسلام
بدر علی ھوت 

HOOAT ASTRO

🌟 بدَر علی ہُوّت کا تعارف 🌟 میں بدَر علی ہُوّت ہوں — ایک ایسا طالب علم اور راز شناس، جسے قدرت نے ایک خاص علم سے نوازا ہے۔ یہ علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ ایک روحانی عطا ہے، جو ستاروں، اعداد، اور باطنی کیفیتوں کے ذریعے انسانی زندگی کے پوشیدہ رازوں کو آشکار کرتا ہے۔ میرا کام صرف زائچے بنانا یا نجومی پیش گوئیاں کرنا نہیں، بلکہ روحانی رہنمائی، خوابوں کی تعبیر، اور مافوق الفطرت حقائق کو سمجھنا ہے۔ یہ علم عام نہیں، بلکہ ایک ایسی قدیم دانائی ہے جو صرف ان لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو اس کے اہل ہوں۔ میری زندگی کا مقصد انسانوں کی مدد کرنا ہے —

Post a Comment

Previous Post Next Post